محمدشار ب ضیاء رحمانی
بہارالیکشن کے انتخابی منظرنامہ میں بی جے پی بیک فٹ پرہے۔ہزیمت کے اسی خدشہ نے بیچ ریس میں گھوڑے بدلنے پرمجبورکیا تاکہ کسی’’ کرن بیدی‘‘پرشکست کاٹھیکراپھوڑاجاسکے۔حکمت عملی میں تبدیلی اوراضطراب کے عالم میں بیان بازی اس کے واضح ثبوت ہیں۔یہ بے چینی گری راج سنگھ سے لے کرامت شاہ اورخودوزیراعظم کے ہرہربیان سے نظرآرہی ہے۔ گذشتہ دنوں بہارمیں قیام کے دوران مونگیر،شیخ پورہ،نالندہ،نوادہ،گیا،پٹنہ کے مختلف حلقوں میں جانے اوروہاں کے انتخابی ماحول کے جائزے کاتفصیلی موقعہ ملا۔ریاست کاسیاسی منظرنامہ بتاتاہے کہ برہمن اوربنیاکے مکمل ووٹ بی جے پی اتحادکوجارہے ہیں،ابتدائی ووٹنگ میں دلت طبقہ ووٹ بھی رام ولاس پاسوان اورمانجھی کی وجہ سے این ڈی اے کے حق میں تھالیکن جس طرح دادری نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں، اسی طرح ہریانہ اوروی کے سنگھ کے بیان نے دلت ووٹ بینک کوبی جے پی سے کچھ حدتک دورکردیاہے نیزیادؤں کے سترفیصداورکرمی کے نوے فیصدووٹ عظیم اتحادکومل رہے ہیں۔سیکولررائے دہندگان خصوصاََمسلمانوں نے اب تک دہلی کی طرح بہت خاموشی کے ساتھ مہاگٹھ بندھن کے حق میں متحدہوکرووٹنگ کی ہے اورآئندہ بھی انشاء اللہ مسلمان اسی اتحادکامظاہرہ کریں گے ۔ایک خوشگوارتبدیلی یہ بھی محسوس ہوئی کہ ذی شعورمسلمان جوکسی پارٹی سے متعلق نہیں ہیں،مسلم آبادی میں گھوم گھوم کرووٹ کومنتشرہونے سے بچاکرمہاگٹھ بندھن کے امیدوارکوووٹ دینے کی اپیل کررہے ہیں کیونکہ مقابلہ سیدھاسیدھااین ڈی اے اورعظیم اتحادمیں ہے ،تھرڈفرنٹ بھی اب غیرموثرہوکررہ گیاہے ۔
بھاگوت کے ریزرویشن کوختم کرنے کے مشورہ کو لالو،نتیش،مایاوتی نے خوب اچھالا،پھرمایاوتی کے تنہاالیکشن لڑنے سے بھی بی جے پی کاووٹ بینک(ہریجن)متاثرہواہے۔اوررہی سہی کسرہریانہ واقعہ نے پوری کردی ۔مودی سرکارکے وزیراوربہارمیں این ڈی اے کااہم چہرہ رام ولاس پاسوان نے یہ کہہ کرزخم پرنمک چھڑک دی ہے کہ ہریانہ کے دلتوں پرمظالم کیلئے ریاستی حکومت(کھٹرسرکار)ذمہ دارہے۔ساتھ ہی مانجھی نے بھی وی کے سنگھ کوبرطرف کرنے کامطالبہ کیاہے ۔
بی جے پی لیڈروں کانتیش سرکارپرالزام ہے کہ ریاست میں احساس عد م تحفظ کی وجہ سے سرمایہ کارصنعت کاری سے احترازکررہے ہیں۔زیراعظم نریندرمودی’’ گڈگورننس کاانتخابی جملہ‘‘ بول رہے ہیں۔لیکن بی جے پی یہ نہیں بتارہی ہے کہ پوری دنیامیں گھومنے کے بعداب تک ہندوستان میں سرمایہ کارکیوں نہیں آرہے ہیں۔میک ان انڈیااورایف ڈی آئی کی مہم فلاپ لگ رہی ہے۔ بڑھتی فرقہ پرستی نے پوری دنیامیں ہندوستان کوشرمسارکیاہے۔جہاں اپنے گھرسے لے کراسمبلی اورادبی محفلوں تک ، غریب پریوارسے ایم ایل اے اورادیب وقلمکار تک محفوظ نہیں ہیں۔اگرکوئی محفوظ ہے توصرف ایک پریوار،یعنی سنگھ پریوارکے ہی اچھے دن آسکے ہیں۔سائنس دانوں،مصنفین ،مورخین اورفلم سازوں نے ایوارڈلوٹاکربی جے پی کے گڈگورننس کوآئینہ دکھادیاہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی سبکی چھپانے کیلئے راج ناتھ سنگھ،ارون جیٹلی ان سب احتجاج کوسیاسی بتارہے ہیں۔لیکن اس کاوہ کیاکریں گے کہ بی جے پی کے سنیئرلیڈررام جیٹھ ملانی اورارون شوری نے مودی حکومت کی ناکامی اورمودی پرملک کوٹھگنے کاالزام لگاتے ہوئے بہارکیلئے نتیش کی قیادت میں حکومت کی تائیدکی ہے ۔دوسری طرف مہنگائی نے کمرتوڑدی ہے۔مودی کے وزیربہارمیں دال اورپیازکی بڑھتی قیمتوں کیلئے نتیش کوذمہ دارقراردے رہے ہیں لیکن وہ یہ بتانے سے قاصرہیں کہ مہاراشٹر،ہریانہ ،جھارکھنڈاورجموں کشمیرمیں بھی یہی صورتحال کیوں ہے؟۔
مہاراشٹربھی بی جے پی کی رول ماڈل ریاست ہے جہاں چھ ماہ میں ساڑھے چھ سوکسان خودکشی کرچکے ہیں۔بیف پرپابندی کے ذریعہ پانچ لاکھ سے زائدافرادکوروزگارسے محروم کردیاگیاہے ۔لیکن اس کے خلاف کوئی مسلمان عدالت میں نہیں گیا،ملک کے چاروں گوشت ایکسپورٹرہندوہیں۔الکبیرکے ستیش اوراتل سبروال ،عربین ایکسپورٹ کے سنیل کرن اورایم اے ارفروزین فوڈزکے مدن ایبٹ اورپی ایم ایل انڈسٹریزکے اے ایس بندراء مسلمان نہیں ہیں۔بیف پرپابندی کسی مذہبی جذبات کی بنیادپرنہیں لگائی گئی ہے بلکہ سرمایہ کاروں کی یہ سرکارچھوٹے کاروباریوں سے روزگارچھین کربڑے سرمایہ کاروں تک بیف پہچاناچاہتی ہے ۔آخروزیراعظم نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والوں کیلئے پندرہ کروڑکی سبسڈی کیوں دے ڈالی؟۔منموہن
حکومت کے آخری سال میں ہندوستان سے 23162کروڑقیمت کاگوشت ایکسپورٹ کیاگیاتھا۔نریندرمودی حکومت کے ابتدائی مہینوں میں گوشت کے برآمدمیں تیس فیصدکااضافہ ہوااورایکسپورٹ 30127کروڑتک پہونچ گیا۔
بی جے پی کی ایک اوررول ماڈل ریاست کشمیرہے۔چھپن انچ کے وزیراعظم کے کشمیرمیں ہردن پاکستانی دراندازی ہورہی ہے،مودی جی کے بلندعزائم کہاں سبوتاژہوگئے ہیں۔گجرات مودی کاپرانارول ماڈل ہے لیکن ہاردک پٹیل نے جوکرکری ان کی کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔راجستھان،مہاراشٹراورمدھیہ پردیش کے گھوٹالوں اوربدعنوانیوں کے الزام نے شفافیت کے دعوے کوکھوکھلاکردیاہے۔وسندھراراجے،سشماسوراج اورپنکجامنڈے پرالزامات کے بعدبھی وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے یہ کہیں کہ اب تک ایک پیسے کی بدعنوانی کا الزام تک نہیں لگاہے توسفیدجھوٹ کی اس سے واضح مثال اورکیاہوسکتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے گاؤں میں ایک بھی شخص پڑھالکھانہیں ہے۔ مودی کے حلقہ انتخاب وارانسی کی بدحالی بدستورباقی ہے۔ان کے آدرش حلقہ انتخاب کایہ حال ہے توملک بھراوربہارمیں وہ خاک وکاس کرسکیں گے؟۔
مودی جی کویہ بھی بتاناچاہئے کہ بہارمیں وہ کس ماڈل کونافذکرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔لمبی لمبی باتیں کرنااورہیلی کاپٹرپرسیرکرناالگ ہے اوریکسوئی کے ساتھ دیش کے وکاس کی کوشش الگ چیزہے۔من کی بات کے ذریعہ بہت دنوں تک بہلایانہیں جاسکتا۔ وزیراعظم نریندرمودی اپیل کرتے ہیں کہ مذہبی بھیدبھاؤاورتشددکوایک طرف رکھ دیاجائے ۔دوسری طرف اپنی انتخابی ریلی میں ریزرویشن پرفرقہ وارانہ کارڈکھیلتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگرکوئی ریزرویشن پانے والاہندو، مسلمان ہوجاتاہے تواسے ریزرویشن سے محروم کردیاجاتاہے اوراب وہ ان مراعات کاحق دارنہیں ہوتاجواسے ہندورہتے ہوئے ملتے رہے ہیں۔کیایہ ہندوہونے کی بنیادپرریزرویشن نہیں ہے اورمذہب کی بنیادپرمسلمانوں کی ریزرویشن سے محرومی نہیں ہے؟۔دراصل ان کے ’’پریوار‘‘ کے نزدیک مسلمانوں کی حیثیت وہی ہے جوکبھی وزیراعظم نے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے بتائی تھی اورہریجنوں کی حیثیت برہمی کلچرمیں وہی ہے جووی کے سنگھ نے گذشتہ دنوں واضح کردی ہے۔وی کے سنگھ کابیان مودی کے سابقہ بیان کی توسیع ہے ۔
میڈیاکے سروے پر نظرڈالیں تو بی جے پی کی بے چینی فطری معلوم ہوتی ہے۔اے بی پی نیوزکے سروے میں122سیٹیں عظیم اتحاداور118این ڈی اے کوبتائی گئی ہیں۔سی این این آئی بی این ایکسیزکے سروے میں137سیکولراتحاداور95بی جے پی اتحادکوملتی ہوئی نظرآتی ہیں۔جس میں نتیش کمارکو64سے74نشستیں بتائی گئی ہیں،نیوزنیشن نے این ڈ ی اے کو111سے 115سیٹیںیعنی 42فیصداورعظیم اتحادکو125سے 129یعنی 45فیصدووٹ مل رہے ہیں۔انڈیاٹوڈے نے این ڈی اے کو107سے 115یعنی 39فیصدووٹ اوریوپی اے کو117سے 125یعنی 41فیصدووٹ بتائے ہیں۔انفوالیکشن ڈاٹ کام نے راجد،جدیواورکانگریس اتحادکو129سے 145سیٹیں اوراین ڈی اے کو87سے 103اوردیگرکو8سے 14سیٹیں بتائی ہیں۔اس سرو ے میںیہ تفصیل بیان کی گئی ہے کہ جدیوکو64سے74،راجدکو46سے 50،کانگریس کو19سے 21،بی جے پی کو77سے87،ایل جی پی کو1سے3،مانجھی کی ہم کو7سے 9،کشواہاکی آرایل ایس پی کو2سے4سیٹیں مل سکتی ہیں۔جبکہ فیصدمیں جدیوکو26،راجدکو15،کانگریس کو5یعنی عظیم اتحادکو46فیصدووٹ ملیں گے جبکہ بی جے پی کو29،ایل جے پی کو4،ہم کو3،رالوسپاکو2،یعنی این ڈی کو38فیصدنیزایس پی ،بی ایس پی اوراین سی پی کو1،اوردیگرکے13فیصدووٹ ہیں۔ یہ سب سرو ے اس وقت کے ہیں جب کہ دلت ووٹ بینک بی جے پی کی طرف تھالیکن ہریانہ معاملہ اوروی کے سنگھ کے بیان کے بعددلتوں کاایک طبقہ یوپی اے کی طرف آیاہوگا۔بہارمیں اپنی پارٹی کی بدحالی کودیکھتے ہوئے اب بی جے پی مذہب کے نام پرووٹوں کے ارتکازکی سیاست کررہی ہے۔اسی لئے مودی ریزرویشن پرمسلم دشمنی کھل کرنکال رہے ہیں اورتعصب اورمذہبی منافرت کازہربہارکی فضامیں گھوم گھوم کرگھول رہے ہیں۔نریندرمودی کی قدیم شناخت پوری دنیامیں مسلم دشمنی کی وجہ سے ہے۔یقین نہ ہوتوشیوسیناکابیان دیکھ لیجئے۔رواداری کے ان کے گذشتہ بیانات سے بعض تجزیہ گارخوش فہمی میں مبتلاہوگئے تھے۔لیکن ریزرویشن پرمودی جی کے پیٹ میں جس طرح تیزدردشروع ہوگیاہے،اس سے ان کاچہرہ اورصاف ہوگیا ہے۔ تمام انتخابی حربوں کے فیل ہونے کے بعدامت شاہ اب پاکستان اورشہاب الدین کانام لے کرنفرت کی سیاست کررہے ہیں ۔ترقی کاایجنڈابی جے پی کی پٹری سے اترگیاہے ۔خصوصی ریاست کے درجہ دینے پراس نے ہاتھ کھڑے کرلئے ہیں لیکنبہارکی عوام بہت خاموشی کے ساتھ صرف نتیش کے ترقیاتی ایجنڈے پرووٹ کررہی ہے۔